خیبرپختونخوا کے وزیر خوراک حاجی قلندر خان لودھی نے کہا ہے کہ محکمہ خوراک میں کی گئی اصلاحات کے نتیجے میں ایک سال کے دوران ایک ارب اکسٹھ کروڑ روپے کی بچت کی جا چکی ہے۔جس میں کسانوں سے براہ راست خریدار ی کی مد میں تقریباًایک ارب چالیس کروڑ روپے، مارک ا پ کی مد میں اٹھارہ کروڑ اور جرمانوں کی مد میں چار کروڑ روپے وصول ہوئے ہیں۔ سال 2018-2019 کے دوران محکمہ خوراک کی کارکردگی کے حوالے سے منگل کے روز پشاور میں میڈیا کو بریفننگ دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ خوراک میں گندم کی خریداری کے لیے مختلف بینکوں سے مقابلے کی بنیاد پر قرضہ لیا جاتا تھااور اس کی واپسی کئی گنا مارک اپ کے ساتھ کی جاتی تھی۔تاہم 2013 کے بعد بہتر پالیسی اور کوششوں کی وجہ سے گندم کی خریداری کیلئے ایک مروجہ پالیسی کو عملی جامہ پہنایا گیا جس کے تحت نہ صرف گندم کی خریداری براہ راست کسانوں سے عمل میں لائی گئی بلکہ بینکوں سے قرضہ لینے کی بجائے فوڈ اکاؤنٹ II میں پڑے پیسوں کے استعمال کیلئے محکمہ خزانہ اور صوبائی اکاؤنٹس کی مشاورت سے مجاز حاکم کی منظوری لی گئی اور اپنے ہی وسائل سے گندم کی خریداری کا عمل پہلی بار سال 2017 میں متعارف کرایا گیا۔ روزمرہ ضرورت کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے موجودہ حکومت نے امسال خصوصی طور پر ٹیمیں تشکیل دیں جس کے تحت محکمہ خوراک نے فوڈ لاز کی خلاف ورزی کرنے والوں کو نہ صرف جیل بھیجا بلکہ بھاری جرمانے بھی عائد کیے اوراس مد میں محکمہ ہذا کو امسال چار کروڑ روپے وصول ہوچکے ہیں۔ صوبائی وزیر خوراک نے کہا کہ اس سال گنے کی سو فیصد کاشتکاروں کو نہ صرف شوگرملز سے بروقت ر قوم کی ادائیگی کرائی گئی بلکہ شوگر سیس فنڈز کی مد میں تقریبا 97 ملین روپے اکٹھے کئے گئے سیس فنڈز سے حاصل کی گئی رقوم کا استعمال فارم ٹو مارکیٹ روڈ کی تعمیر، پلوں کی تعمیر اور گنے کی تحقیق پر خرچ کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ خوراک نے فوڈ سیکیورٹی کے پیش نظر گندم کی ذخیرہ گنجائش 402950 میٹرک ٹن سے بڑھا کر 416950 میٹرک ٹن کر دی گئی ہے۔ اسکے علاؤہ محکمہ خوراک نے پاکستان سٹیزن پورٹل سے موصول ہونے والی 95 فیصد شکایات کو بخوبی احسن حل کیاجس کے نتیجے میں محکمہ ہذا پی ایم آر یو کی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر رہا۔ حاجی قلندر خان لودھی نے کہا کہ 2013 سے لے کر اب تک روٹی کی قیمت کو دس روپے پر برقرار رکھاجبکہ سال 2013 تا 2018 تک آٹے کی 20 کلو تھیلے کی قیمت 760 سے 780 روپے تک رہی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ خوراک نے غذائیت کی کمی جس کا خصوصی طور پر خواتین اور بچے شکار ہیں پر قابو پانے کیلئے یو کے ایڈ کے تعاون سے فوڈ فار ٹیفیکیشن پروگرام کو ابتدائی طور پر پر صوبے کے 13 اضلاع پشاور ،مردان ، چارسدہ ،نو شہرہ،صوابی،ایبٹ آباد،مانسہرہ،ہری پور،بٹگرام،سوات مالاکنڈ،دیر اپر اور دیرلوئر میں متعارف کیا ہے ویٹ فورٹیفیکیشن کے تحت آٹے میں زنک، فولک ایسڈ ، آئرن اور ویٹامن B-12 شامل کیا جاتا ہے۔ نئے ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر خوراک نے کہا کہ ضم شدہ اضلاع میں محکمہ خوراک نے متصل اضلاع کے افسران اور عملہ کو عارضی طور پر اضافی ذمہ داریاں تفویض کی ہیں تاکہ قبائلی اضلاع میں بھی اشیائے خوردنی ودیگر اشیاء کو بھی حکومت کے مقرر کردہ نرخوں کے مطابق دستیاب کیا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ چار سالوں میں محکمہ خوراک کو ان اضلاع تک مرحلہ وار توسیع دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سال 2013 سے پہلے گوداموں میں ذخیرہ گندم کی گنجائش تقریبا 354000 میٹرک ٹن تھی جس کو 402950 میٹرک ٹن تک بڑھا دیا گیا ہے جبکہ 14 ہزار میٹرک ٹن کے منصوبوں پرکام جاری ہے۔مختلف اضلاع جن میں بونیر،صوابی،کوہاٹ ،بنوں،مردان ،مانسہرہ،بٹگرام،چترال،ہنگو،پشاور اور دیر لوئر شامل ہیں میں نئے گوداموں کی تعمیر عمل میں لائی گئی مزید یہ کہ محکمہ خوراک میں پلاننگ سیل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تاکہ محکمہ کی طرف سے جدید خطوط پر گودام اور دیگر انفراسٹرکچر بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جا سکے۔حاجی قلندر خان لودھی نے کہا کہا کہ محکمہ خوراک کی فیڈ ملازمین کی کارکردگی کو بہتر اور استعداد کار کو بڑھانے کے لئے مختلف اضلاع میں دفاتر اور رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔ مزید برآں ڈویڑنل اسسٹنٹ ڈائریکٹرز کے لیے گاڑیوں کی خریداری بھی کی گئی اس کے علاوہ محکمہ خوراک کی مختلف کیڈرز 1271 ملازمین کو اپ گریڈ، 238 کو اگلے گریڈ میں ترقی اور تقریبا 168نئے ملازمین کو مختلف کیڈر میں بھرتی کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر نے کہاکہ محکمیکی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے محکمانہ سطح پر سزا جزا کا عمل لاگو ہے۔ اس ضمن میں کئی سرکاری ملازمین کے خلاف قانون کاروائی سمیت ان سے 12 کروڑ روپے سے زائد رقم کی وصولی کرکے سرکاری خزانہ میں جمع کرائی گئی۔