وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے ضم شدہ قبائلی اضلاع کی 131 غیر فعال صحت سہولیات کو فعال کرنے کیلئے زیر التواءایس این ایز کوتیزی سے حتمی شکل دینے کی ہدایت کی ہے تاکہ صوبائی حکومت کی اولین ترجیح کے مطابق قبائلی عوام کو صحت کی معیاری سہولیات اور ریلیف کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ انہوں نے 60 ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسرز اور ڈیٹا اکھٹا کرنے والے معاونین کی بھرتی کا عمل آئندہ ماہ جنوری کے آخر تک مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ قبائلی عوام کو صحت کی معیاری خدمات کی فراہمی کیلئے نگرانی کا عمل مضبوط کیا جا سکے۔ انہوںنے کہاکہ کارکردگی کے کلیدی پیمانوں کے مطابق صحت کے اداروں کی باقاعدہ نگرانی نہایت ناگزیر ہے۔انہوںنے ٹیسٹنگ ایجنسی کے ذریعے شعبہ صحت میں خالی آسامیوں پر بھرتیوں میں تیزی لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ہدایت کی کہ قبائلی اضلاع کے 7 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اور 4 تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں جدید آلات کی تنصیب کا عمل بھی جلد از جلد مکمل کیا جائے تا کہ بیماریوں کی جلد تشخیص اور علاج ممکن ہوسکے۔ وہ وزیراعلیٰ ہاو¿س پشاور میںایک اہم اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔وزیر صحت ہشام انعام اﷲ، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم ضیاءاﷲ بنگش، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ضم شدہ اضلاع اجمل وزیر، ایڈیشنل چیف سیکرٹری شکیل قادر، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ، ضم شدہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین صوبائی اسمبلی نصیر وزیر، غزن جمال، محمد شفیق، سید اقبال میاں، انور زیب خان، ایس ایس یو کے سربراہ صاحبزادہ سعید اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی ۔وزیراعلیٰ کو ضم شدہ علاقوںکے صحت کے شعبے میں اب تک ہونے والی پیشرفت کے بارے میںتفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ ضم شدہ اضلاع میں صحت کی سہولیات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ نئے ضم شدہ اضلاع میں صحت کی کل 1108 سہولیات موجود ہیں جن میں سے 869 سہولیات فعال ہیں۔ بقیہ غیر فعال صحت کی سہولیات کو فعال بنانے کے لئے اقدامات جاری ہیں۔ 7 ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور 4 تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں کمزوریوں کو دور کرنے ، ڈی ایچ کیو / سیکنڈری سطح کے ہسپتالوں کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی ، معیاری طبی اور غیر طبی سازوسامان کی فراہمی ، ادویات کی فراہمی اور سٹاف کی بھرتی کیلئے متعدد سکیمیں پہلے سے ہی تیز رفتار عمل درآمد پلان اور سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل کی گئی ہیں۔وزیر اعلی نے ہدایت کی کہ صحت کے شعبے میں جاری تمام سرگرمیاںتیز رفتاری سے مکمل کی جائیں اور اس مقصد کیلئے حقیقت پسندانہ ٹائم لائنز بھی طے کی جائیں۔